چونکہ کائنات کی وسعتیں بے پائیاں ہیں، علم ہیئت کے زیادہ تر ماہرین کی یہی رائے تھی کہ اِن وسعتوں میں کہیں نہ کہیں زمین جیسا کوئی دوسرا کرہ ارض ہوگا۔
تاہم، سویڈن کی ’اُپسالا یونیورسٹی‘ کی جانب سے تشکیل کردہ ایک کمپیوٹر ماڈل سے پتا چلا ہے کہ ہمارا کرہ ارض شاید واحد جگہ ہے جہاں زندگی موجود و قائم ہے۔
علم فلکیات کے ماہر، ایرک زکرسن نے اس معاملے پر کہ دنیا کس طرح وجود میں آئی، اب تک کا سارا انسانی علم و دانش اکٹھا کیا، جس کا آغاز ’بِگ بینگ‘سے ہوا اور اب تک کی ساری معلومات جمع کرکے ایک طاقتور ترین کمپیوٹر کے حوالے کی۔
کمپیوٹر نے ٹھوس طریقہ کار اپنانے کے باوجود وہی کچھ بتایا جس کا ہمیں پہلے سے علم تھا کہ کائنات میں 700 تقریباٍ سنکھ در سنکھ (یا 7 کے بعد 20 صفر) سیارے ہیں۔
جو حساب غیر متوقع تھا وہ یہ ہے کہ امکان اِسی بات کا ہے کہ زمین ہی ایک مختلف النوع کرہ ہے، جو
بیشمار ناقابلِ رہائش اور مردہ دنیاؤں میں واحد مقام ہے جہاں زندگی موجود ہے۔
علم طبیعیات کے قوانین اور تسلیم شدہ دانش کو مدمظر رکھتے ہوئے، مطالعے میں اس بات پر نظر دوڑائی گئی کہ سیارے کس طرح وجود میں آئے۔ یوں لگتا ہے کہ یہ عمل محض سیاروں کے وجود میں آنے کی دلیل دیتا ہے، جہاں کسی نہ کسی انداز سے زندگی کے آثار قائم رہ سکتے ہوں۔
قرینہ قیاس احتمال یہی ہے کہ صرف ہماری کہکشاں اور ’ملکی وے‘ میں ہمارے سیارے کی قسم کے تقریباً 50 ارب سیارے ہوں گے۔ تاہم، زکرسن کے ماڈل کے مطابق، زمین ایسا گورکھ دھندا ہے جس کی ترتیب کسی نقص کی بنیاد کا پتا دیتی ہے۔
سائنس داں کہتے ہیں کہ اگر مزید تحقیق یہ ثابت کر بھی دے کہ یہ نظریہ درست نہیں، پھر بھی یہ کہنا مشکل ہوگا کہ ہماری طرح کے سیارے شاذ و نادر بنتے ہیں جو کہ ایک دوسرے سے بے انتہا دور واقع ہیں۔
یہ نیا مطالعہ آن لائن شائع ہوا ہے، جسے ’دِی اسٹروفزیکل جرنل‘ کو پیش کیا گیا ہے۔